Tag Archives: Acacia nilotica

گورو جم بھیشور ،بشنوئی اور چپکو تحریک ۔

14 ستمبر

گورو جم بھیشور ،بشنوئی اور چپکو تحریک ۔

راجستان  کے ضلع ناگور کے گاؤں پیپاسر میں راجپوتوں کے پنوار خاندان کے ٹھاکر لوہت جی پنوار اور شریمتی ہنسا دیوی کو خدا نے۱۴۵۱ میں  ایک بیٹے سے نوازا ، شادی کے بہت طویل عرصے بعد اور بہت ہی منتوں مرادوں کے ثمر ، اس بیٹے کا نام جم بھیشور تجویز ہوا۔

بھگوان کرشن کے جنم دن کو پیدا ہونے والا  یہ بچہ اپنے  آپ میں کچھ منفرد تھا،  سات سال کی عمر تک تو بولتا بھی نہ تھا۔امپنے آپ میں گم یہ نوجوان شری کرشن جی مہاراج کی طرح ۲۷ برس بن باس میں بھی رہا۔

۱۴۸۵ میں آنے والے خوفناک قحط نے پورے راجستان کو بری طرح متاثر کیا ، مکین گھر بار چھوڑ کر پڑوسی ریاستوں کی جانب ہجرت پر مجبور ہوئے۔جم بھیشور کو اس صورتحال نے رنجیدہ کر دیا۔ وہ اس صورتحال پر غور و فکر کیا کرتے اور ان کی اس سوچ بچار  نے ان کے ۲۹ اصولوں پر مبنی ایک دستاویز کو جنم دیا جو بجا طور پر برصغیر پاک و ہند کے لوگوں اور ماحول کے مابین دوستی کا پہلا اعلامیہ کہلا سکتی ہے۔

لوگوں کے اذہان و قلب کو کھولنے والی اس دستاویز نے ہی نوجوان جم بھیشور کو گورو جم بھیشور بنا دیا۔گورو جم بھیشور جی کے انہی ۲۹ اصولوں  کی بنا پر ان کے پیروکار (بش ۲۰ ، نو ۹ ) بشنوئی کہلاتے ہیں یعنی ۲۹ اصولوں کو ماننے والے۔ان کے چاہنے والے ان کو پیار سے جم بھو جی بھی کہتے ہیں۔ ۲۹ اصولوں میں سے آٹھ۸ کا تعلق براہ راست جنگلی جانوروں اور نباتاتی حیات کے تحفظ سے ہے ،سات۷ صحت مند سماجی تعلقات پر اسرار کرتے ہیں اور دس ۱۰ اصول ماننے والوں کو ذاتی صحت کی حفاظت اور پاکیزگی کے تعلیم دیتے ہیں۔صرف ۴ اصول عبادات سے متعلق ہیں۔

یہ گورو کی تعلیمات کا ہی فیض ہے کہ راجستان میں، صحرا کے پاکستانی حصہ کی نسبت زیادہ درخت ہیں اور معدوم ہوتے ہوئے کالے ہرن اور نیل گائے کی بڑی تعداد موجود ہے۔بشنوئی اس قدر ماحول دوست اور مہربان ہوتے ہیں کہ ان کی عورتیں صحرا کے جانوروں کے لاوارث بچوں کو اپنا دودھ تک پلاتی ہیں ۔ انسانوں اور جانوروں کے درمیان ایسی ہم آہنگی  شائد ہی دنیا کے کسی اور حصہ میں دیکھی جاسکے۔

گورو جم بھیشور نے صرف ۳۴ برس کی عمر میں ریت کے ایک بڑے ٹیلے جسے  سمارا تھل دھوراکہا جاتا تھا سے ایک نئے مذہب یا  مذہبی فرقے کی بنیاد رکھی۔ہم انہیں فرقے کی بجائے ماحول دوست گروہ بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ مذہبی فرقے اپنی عبادات سے شاخت ہوتے ہیں  جبکہ بشنوئی اپنی روزمرہ زندگی کے اصولوں کی بنا پر۔ زیادہ تر مذہبی فرقے اپنے ازلی یا پھر ابدی ہونے پر اسرار بھی کرتے ہیں۔مذہبی رسومات اور عبادات میں تبدیلی کی خواہش کرنا یا ایسا کرنے کی جسارت کرنا آپ کو ان کے دائرے سے ہی خارج کر سکتا ہے۔دیکھا یہ گیا ہے کہ بدلتی زندگی ان میں تغیر کی متقاضی ہوتی ہے اور یہ اپنے اٹل اور ابدی ہونے پر اسرار کی وجہ سے عملی زندگی میں اپنی افادیت کھو دیتے ہیں۔

بنیادی طور پر ہندو مذہب سے ابھرنے کے باوجود گوروجم بھو جی نے مرنے والوں کی آخری سومات میں بہت زیادہ لکڑی کے استعمال سے جلائے جانے کی بجائے دفن کرنے کا طریقہ اختیار کیا۔عمر کے باقی ۵۱ برس گورو نے نہ صرف راجستان بلکہ ہندوستان کے طول و عرض میں اپنے نظریات کا پرچار کرتے ہوئے بیتائے۔

ان کی تعلیمات پر مبنی شاعری شبدوانی کے نام سے دستیاب ہے۔ کل ۱۲۰ شبد(نظمیں) ہی ہم تک پہنچ پائے ہیں اور وہ ہی ان کی تعلیمات کو سمجھنے کے لئے کافی سمجھے جاتے ہیں۔ راجستان کے علاوہ بشنوئیوں کی ایک بڑی تعداد گجرات، ہریانہ، پنجاب اور دہلی میں آباد  ہے۔ ان کے مذہبی اجتماعات سال میں دو بار راجستان کے ضلع بیکانیرمیں موکم کے مقام پر منعقد ہوتے ہیں جنہیں میلہ کہا جاتاہے۔ بیکانیر پاکستان  کے ضلع بہاولپور کے مقابل سرحد پاربھارت کا حصہ ہے۔  گورو جم بھیشور جی ۱۵۳۶ میں ۸۵ سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوئے اور موکم ضلع بیکانیر کے مقام پران کا جسد خاکی ان کی ہی کی تعلیمات کے مطابق سپرد خاک کیا گیا ۔

ان کی یاد میں ایک تعلیمی ادارہ بھارت کی ریاست ہریانہ میں  گورو جم بھیشور یونیورسٹی   آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے نام سے قائم ہے اور بلا لحاظ مذہب و ملت سب کو زیور تعلیم سے آراستہ کر رہا ہے۔شاید اپنے محسنوں کو یاد رکھنے کا یہ سب سے عمدہ انداز ہے۔

گورو جم بھیشور کی تعلیمات بے اثر نہیں تھیں اور امریتا دیوی بھی آخری جانثار نہیں تھیں ،ہر دور میں ان کا بلند کیا ہوا پرچم لے کر عشاق کےبہت سے قافلےنکلےاوراپنے اپنے وقت پر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتےچلے آ رہے ہیں اور یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔ کبھی کوئی نہال چند(۱۹۹۶) معصوم ہرنوں اور نیل گائیوں کے خطرناک شکاریوں کے تعاقب میں اپنی جان وارتا دیکھائی دیتا ہے تو کبھی کارما اور گورا(۱۶۰۴) اپنے گاؤں میں لگے جنڈ کے درختوں کو بچاتے اپنی زندگی ہار دیتیں ہیں۔ان قربانیوں کی فہرست بہت طویل ہے اور فرداً فردا ًان کا ذکر کرنا ان صفحات میں ممکن نہیں۔

بشنوئی اپنے اصولوں کی بجاآوری میں کسی مصلحت سے کام نہیں لیتے اور اٹل رہتے ہیں۔، اس کی مثال ہندوستان کے کروڑوں عوام کے دلوں کی دھڑکن سلمان خان کا کیس ہی لے لیجیے ، یکم اکتوبر ۱۹۹۸ کو رات کے وقت پونم چند بشنوئی نے انہیں ایک ہرن کو مارتے دیکھ لیا اور اس کی شکایت پر نہ صرف سلمان خان گرفتار کر لئے گئے بلکہ تمام تر کوششوں کے باوجود نہ کوئی گواہ منحرف ہوا اور نہ ہی مقدمہ سے دستبردار ، اور سلمان خان کے خلاف کیس آج  بھی قائم ہےاور وہ ضمانت پر رہا کئے گئے ہیں۔

بشنوئی علاقوں میں ماحول کی حفاظت کو ایک طرف رکھیئے کہ وہاں کوئی نہ کوئی ( مرد ، عورتیں  یا بچے)تو ہوتا ہی ہے اپنے ہم وطن درختوں اور جانوروں کے شانہ بشانہ کھڑا ہونے کو، گورو جم بھیشور کی تعلیمات اور ان کے ماننے والوں کی قربانیوں نے اسے ایک تحریک اور ایک رویہ بنا دیا اور برصغیر کے طول و عرض میں اس کی تقلید کی گئی

گورو جم بھیشور کے ۲۹ اصولوں کی تعلیم کے کوئی ۲۴۵ برس بعد امریتا دیوی اور ان کے ۳۶۳ ساتھیوں نے قربانی کی ایسی مثال قائم کی جس کی نذیر ملنا مشکل ہے اور اس عظیم قربانی کے ۲۴۴ برس بعد ۲۶ مارچ ۱۹۷۴ کو بھارت کی ریاست اتراکھنڈکے ضلع چمولی   کے علاقے ہموال گھاٹی کےایک دور دراز گاؤں‘ رینی’ کی باہمت اور پرعزم کسان خواتین نے جنگل کے ٹھیکیداروں اور سرکاری افسران کی ہر عیاری اور دھونس دھاندلی کو ناکام بنایا، جنگل کے ٹھیکیداروں نے درختوں کی کٹائی کے لئے ایک ایسے دن کا انتخاب کیا جب گاؤں کے سب مرد گاؤں سے دور کسی سرکاری دفتر سے اپنے واجبات کی وصولی کے لئے گئے ہوئے تھےاور ان کا خیال تھا عورتیں کتنی اور کب تک مزاحمت کر سکیں گی  لیکن ان کا یہ خیال ایک خواب ثابت ہوا اور ہر طرح کے خوف اور لالچ سے بے نیازکسان خواتین آخری حربے کے طور پر اپنے درختوں سے لپٹ گئیں اور ان سے پہلے کٹنے کا اعلان کیا ۔ سارا دن اور ساری رات ان کا پہرا دیا جب تک ان کے مرد اپنے گاؤں واپس نہ آگئے۔

یہ تحریک اتنی موًثر تھی کہ ہمالیہ کے  پورے دامن میں لوگوں نے اسی کو اپنایا ۔ یہ احتجاج برسوں کامیابی سے جاری رہا اور بل آخر  ۱۹۸۰ میں وزیراعظم اندرا گاندھی نے اگلے ۱۵ برسوں کے لئے(جب تک پورا علاقہ پھر سے سر سبز نہ ہو جائے) پورے ہمالین ریجن میں درختوں کی کٹائی پر پابندی لگادی اور پھر اسی تحریک نے عوام کی امنگوں سے قریب ترین جنگلات کی سرکاری پالیسی کو جنم دیا۔تاریخ کی کتابوں میں عوام کی اپنے ماحول اور اپنے ہم وطن پودوں ، درختوں سے محبت کی یہ داستان ‘ چپکو تحریک’ کے نام سے جانی جاتی ہے۔

چپکو تحریک نے کچھ بڑے لیڈروں کو بھی جنم دیا جن میں بہت بڑی تعداد خواتین کی ہے ۔ انہیں میں سے ایک لیڈر جناب سندر لال بہوگنا بھی ہیں جنہوں نے چپکو تحریک کو پھیلانے کے لئے ۱۹۸۱ سے ۱۹۸۳ تک ہمالیہ کے پورے دامن میں ۵۰۰۰ کلو میٹر کا پیدل مارچ کیا، ماحول دوستی اور جنگل کی حفاظت اہمیت سے سب کو آگاہ کیا۔ چپکو تحریک کی کامیابی کا راز اس میں عورتوں کی بڑی تعداد میں شمولیت کو مانا گیا ہے۔ عورتوں اور درختوں کا دیہاتی معیشت میں بہت اہم اور  بنیادی کردار ہوتا ہے۔ درخت کے تقریباً سبھی اجزاء پتے ، جڑیں ، چھال ، تنا اور پھل پھول  وغیرہ کسی نہ کسی مالی منا فع کا باعث ہوتے ہیں، جانوروں کے چارے سے لے کر مزیدار پھل تک اور بیماری میں شفا اور دوا سے لے کر گھر کا چولہا روشن رکھنے تک سبھی کاموں میں مدد گار ہوتے ہیں۔ دیہاتی زندگی کا کارخانہ ، کسی بھی کھاتے میں درج نہ ہونے والی عورتوں کی جان توڑ محنت سے ہی چلتا ہے،منہ اندھیرے گائے بھینس کا دودھ دوھنے سے شروع ہونے والا دن گھر کے کام کاج کے علاوہ  سارا دن کھیتوں میں مشقت پر ختم ہوتا ہے۔

چھیتی چھیتی ودھ وے ککرا اساں سس دا صندوق بنانا

27 اگست

کیکر کے پھولوں کو اس سے بہت کم توجہ دی جاتی ہے جس کے وہ مستحق ہیں!

قمر مہدی

پنجابی زبان میں بولیاں مشکل سے مشکل بات کو بہت ہلکے پھلکے انداز میں کہنے کا ایک موثرذریعہ ہیں۔ اس بولی میں بہو کیکر کو مخاطب کرکے جو خودآپ  ہی بہت تیزی سے بڑھنے کے لئے مشہور ہے، کہہ رہی ہے، جلدی جلدی بڑا ہو کہ وہ اس کی مظبوط لکڑی سے اپنی ساس کے سفرآخرت کا تابوت بنا سکے۔

ہماری لوک شاعری میں مٹی کی خوشبو ہے، اس کا رشتہ اپنے لوگوں ، درختوں ،پھولوں ، فصلوں اور اپنے ماحول سے بہت مظبوط اور گہرا ہے۔ اسکے استعارے اور تشبہات بھی وہیں سے آتے ہیں ۔اس میں ان سب کے بارے میں ان کی دلچسپی کے ساتھ ساتھ ان کے گہرے علم کا اظہار بھی ہے۔ کیکر تیزی سے بڑھتا ہے اور اس کی لکڑی بہت مظبوط ہوتی ہے ،لہذا ساس کے تابوت کے لئے سب سے مناسب سمجھی گئی ۔کیکرکے تنے کا رنگ سیاہی مائل گہرا بھورا ہوتا ہے اور اس بات کو شاعر نے کہاں جا کے جوڑا

منڈا روہی دے ککر توں کالا تے باپو نوں پسند آ گیا

اس مظبوط اور اٹوٹ رشتے اور روزمرہ زندگی میں ان اشجار کی اس شمولیت نے ہمارے اپنے مقامی درختوں اور پودوں کو ہمارے دیہاتی منظرنامے سے غائب ہونےسے بچا  رکھا ہے ، جبکہ شہروں کی بات اس کے برعکس ہے۔ شہروں میں درخت لوگ خود نہیں لگاتے بلکہ ادارے لگواتے ہیں اور لگانے اور لگوانے والوں کے معاشی مفادات کے زیر اثر ہی درختوں اور پودوں کا انتخاب ہوتا ہے۔

اگر آپ غور سے دیکھیں تو وہ ایک کیکر ہی تو ہے جس  کے زیر سایہ کاشت کارکی جملہ ضروریات اور مشکلات کا حل سمایا ہے۔اس کے گھر کے باہر لگے ایک کیکر تلے اس کی گائے بھینس، بکری اور باربرداری کے جانور یعنی بیل اور گدھا بھی مقیم ہیں اور ان کا چارا کاٹنے کی مشین ، ایندھن کے لئے جمع کی ہوئی لکڑیاں اور جانوروں کا گوبر سب کچھ تو کیکر کی گھنی چھائوں تلے ہے۔درخت کی بڑھوتری کے لئے کی گئی تراش خراش سے حاصل ہونے والی شاخیں کاشتکار کا چولہا روشن رکھتی ہیں۔  کاشتکار کے لئے یہ صرف ایک درخت نہیں اس کا بازو ہے اور بازو بھلا کون کاٹتا ہے۔ کیکر اور ہمارے کاشت کار کا صدیوں پرانا ساتھ ہے اس گہرے اور مظبوط رشتے کو اگر کوئی نام دیا جاسکتا ہے تو وہ سوائے بقائے باہمی کے اور کچھ نہیں۔

جسے ہم اردو اور پنجابی میں کیکر کہتے ہیں اسے ہی سنسکرت میں ببول کا نام دیا جاتا ہے انگلش میں اسے عریبک تھرونArabic throne کہا جاتا ہے۔ اس کا نباتاتی نامAcacia nilotica  یونانی زبان کے لفظ آکس سے لیا گیا ہے جس کامطلب ہے کانٹا،نام کا دوسرا حصہ اس کی کاشت کے علاقے یعنی وادیٌ نیل کی نسبت سے ہے۔  آکیسیا نائی لوٹیکا  یا کیکر کی آماجگاہ بہت وسیع ہے یہ افریقہ سے ایشیا اور آسٹریلیا تک پھیلی ہوئی ہے۔جنوبی فرانس میں بھی قدرتی طور پر پایا  جاتا ہے

۔کیکر ان اشجار میں شامل ہے جن کا ہر حصہ معاشی اہمیت کا حامل ہے خواہ وہ اس کی لکڑی ہو یا پتے، اسکی چھال ہو یا اس کی پھلیاں سب ہی کسی نہ کسی کے کام آتے ہیں ، دور کیوں جائیے خود اس کا  اپناوجود جس زمین پر ہوتا ہے اس کی قسمت بدل جاتی ہے۔ اسے بنجر زمینوں کو کارآمد بنانے کے لئے بھی کاشت کیا جاتا ہے۔ اس کی جڑوں کا ایک خاص حصہ جنہیں روٹ نوڈلز کہتے ہیں، ہوا میں موجود نائٹروجن کو پودوں کے استعمال کے قابل نائٹروجن یعنی کھاد میں تبدیل کرنےکی حیرت انگیز صلاحیت کا حامل ہوتا  ہے اپنے اردگرد کی زمین کو زرخیز بناتا ہے۔ اس کی جڑوں کا دوھرا نظام جہاں زمین میں نامیاتی مادےکی مقدار میں بے پناہ اضافے کا باعث ہوتا ہے وہیں اس کی مرکزی جڑ یا ٹیپ روٹ بہت گہرائی میں جا کر نہ صرف اپنے لئے پانی کا بندوبست کرتی ہے بلکہ اپنے اطراف زیرزمین پانی کی سطح بھی بلند کرتی ہے اورکیکر کو زرعی شجرکاری کے لئے ایک پسندیدہ درخت بناتی ہے۔

یہ ایک 30-35 فٹ اونچا اور تقریبا” اتنی ہی لمبی چوڑی چھتری والا درخت ہے۔ بسا اوقات اس کی اونچائی ۲۰ میٹر یعنی ۶۰ فٹ تک ہوجاتی ہے۔کیکر کا تنا بہت موٹا نہیں ہوتا اور چھال کا رنگ سیاہی مائل بھورا ہوتا ہے جو کافی کٹی پھٹی ہوتی ہے۔کیکر کے سیدھے تنے والے درخت شازوناظر ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس کا بل کھاتا ٹیڑھا میڑا، جھکتا اٹھتا سراپا اور اس پر کانٹوں کی بہتات اس کے ازلی دکھی ہونے کے تاثر کو ابھارتا ہے۔

اس کے پتے جب اپنی شاخوں سے پھوٹتے ہیں تو بہت ہلکے اور بہت کھلتے ہوئے سبز رنگ کے ہوتے ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کا رنگ گہرا اور سلیٹی مائل ہوجاتا ہے۔ شاخوں سے پھوٹتی ذیلی شاخیں 3-6 جوڑوں کی صورت ایک دوسری کے بل مقابل نمودار ہوتی ہیں جن پر10-30بیضوی پتے ظاہر ہوتے ہیں دراصل اس کی ذیلی شاخوں کو ہی اس کے پتے سمجھا جاتا ہے۔

بڑی شاخوں سے جہاں پتوں والی ذیلی شاخیں پھوٹتی ہیں وہیں سے پہلے سلیٹی رنگ کے کانٹے جو جوڑوں کی شکل میں 2-3 انچ لمبے ہوتے ہیں،نکلتے ہیں پھر باری آتی ہے پھولوں کی ۔ کانٹوں اور پتے والی ذیلی شاخوں کے پھوٹنے کےمقام سے ہی وہ ننھی ڈنڈیاں نکلتی ہیں جن کے سرے پر گول گول سی ننھی کلیوں کا گچھا ہوتا ہے جو کھلنے پر باریک باریک بالوں والی گیند کی شکل اختیار کرلیتاہے۔ یہ پھول گچھوں کی صورت ہوتے ہیں۔ کیکرکی کاشت کے تمام آبائی علاقوں میں سورج بہت سویرے بیدار ہوتا ہے اور شام کو دیر تک جانے کا نام نہیں لیتا یہ بات کیکر کے لئے باعث فکر نہیں بلکہ اس کے پھولوں نے تو رنگ ہی دھوپ سے چرایا ہے۔ دھوپ رنگ ان نازک پھولوں میں بہت ہی دھیمی پر مسحور کن خوشبو ہوتی ہے جسے ہوا اپنے ساتھ ہی لے جاتی ہے۔ کیکر کے پھول اپنی ساخت میں ہی نازک نہیں ان کا رنگ بھی جلد پھیکا پڑجاتا ہے اور اس طرح سیاہی مائل بھورے، سبز اور سلیٹی کے علاوہ زرد کے نجانے کتنے رنگ ایک ساتھ موجود ہوتے ہیں۔ ایسے میں کون ہوگا جو نظر ہٹانا چاھے گا۔ چھوٹے اور کم عمر درخت پر کانٹے لمبے اور تعداد میں زیادہ ہوتے ہیں جبکہ مکمل درخت پر ان کی تعداد بھی کم ہوتی ہے اور جسامت بھی۔ یہ اس کا قدرتی حفاظتی نظام ہے جو اسے چرنے والے جانوروں سے بچاتا ہے۔

اس کے پتے اونٹ، بکری اور گائے بھینس وغیرہ کا پسندیدہ چارا ہے اور انتہائی صحت بخش بھی ہے۔ اس کی چھال میں ٹیننز کی بھاری مقدار پائی جاتی ہے جو ادویہ سازی کے علاوہ جانور کی کھال کو چمڑا بنانے اور پھر رنگنے کے کام آتی ہے۔ دراصل چمڑے کازرد  رنگ کیکر کا دیا ہوا ہی ہے ورنہ جانور کی کھال تو ہلکی نیلی یا سلیٹی ہوتی ہے۔

کیکر کی پھلیاں بھی دیدہ زیب ہوتی ہیں ، بیجوں کے گرد مظبوطی سے اس طرح مڑھی ہوئی ہوتی ہیں کہ بالکل موتیوں کی لڑیاں دیکھائی دیتی ہیں اور اپنے ہلکے سلیٹی رنگ کی وجہ سے سبز پتوں اور گہری بھوری شاخوں میں بہت ہی نمایاں ہوتی ہیں غرض کیکر کا نظارہ کبھی دلچسپی سے خالی نہیں ہوتا۔کیکر کی ہر شے کارآمد اور قیمتی ہے۔ پتے مویشیوں کا مرغوب چارا ہیں تو پھلیاں بھی اپنی غذائی افادیت میں کسی سے پیچھے نہیں۔ خشک چارے کے طور پر تو صدیوں سے استعمال کی جاتی ہیں  پر اب انہیں مرغیوں کی خوراک میں بھی بطور پروٹین میل شامل کیا جارہا ہے۔

ماہی پروری کرنے والے کاشتکار پھلیوں کو مچھلیوں کے تلاب میں ڈال دیتے ہیں جس سے گھونگے اور بہت سے کیڑے تلاب سے دور رہتے ہیں اور بہت سی بیماریاں مچھلیوں سے دور۔کیکر کی لکڑی صدیوں سے ہمارے رہن سہن کا لازمی جز رہی ہے۔ گھروں کی تعمیر میں اس کےکھڑکی دروازے، شہتیر اور بالے اولین انتخاب رہے ہیں ،اس کے علاوہ اس کا بنا ہوا فرنیچر بھی بہت مظبوط ہوتا ہے اور سالہا سال کام آتا ہے۔مظبوطی میں اس کا مقابلا شیشم سے کم کسی اور لکڑی سے نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی کلوریفک ویلیو یعنی حرارت پیدا کرنے کی صلاحیت بھی بہت بلند ہے اس سے کوئلہ بھی بہت عمدہ بنتا ہے اور یہ جلتی بھی خوب ہے۔

شہروں میں اس کی تعداد اب نہ ہونے کے برابر ہے اور اس صورت حال کے تبدیل ہونے کا بھی کوئی امکان دور نزدیک نظر نہیں آ رہا۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے۔ کیکر کو دیس نکالا کیوں دیا جارہا ہے؟  کیکر سے روائیتی طور پر لئے جانے والے کاموں کو جدید سائنسی خطوط پر تحقیق کرکے مزید بہتر کیوں نہیں کیا جاسکتا؟جیسے کہ چمڑا سازی، پولٹری اور فش فارمنگ کی صنعت وغیرہ

کیہ جاناں میں کون؟

15 اگست

Kiker on Road side

بس کافی دیر سے اچھرا بازار سے پہلے والے ٹریفک سگنل پر رکی ہوئی تھی، شاید ٹریفک جیم تھا۔ یہ تو اب معمول کی بات ہے آپ گھر سے نکلیں تو منزل تک پہنچتے پہنچتے دو تین بار تو ایسا ہونا ہی ہے۔ پھنسی ہوئی گاڑیوں کی لمبی قطاریں جو ہوا میں دھوئںہ کی مقدار میں بے پناہ اضافے کے سوا اور کر بھی کیا سکتی ہیں اپنا کام بخوبی سر انجام دے رہیں تھیں۔

بیزاری میں ادھر ادھر دیکھنے کے سوا کوئی چارا نہ تھا۔ اکتاہٹ اور بیزاری میں بھی نظر بار بار جا کر سبزی مائل گرے رنگ کے پتوں میں سے جھانکتے گول گول ،چھوٹے چھوٹے پیلے پھولوں والے ایک درخت میں اٹک جاتی تھی جو سڑک کے اس پار شیل کے پٹرول پمپ سے آگے کونے پر نجانے کب سے کھڑا اپنے ہم وطنوں کی بے ترتیبی اور بےگانگی کا تماشہ دیکھ رہا ہے۔

اس فٹ30-35اونچے اور پھولوں سے لدے درخت میں میری دلچسپی کو ساتھ بیٹھے شخص نے بھانپ لیا۔میری حیرت کی اس وقت انتہا نہ رہی جب اس نے مجھ سے پوچھا، "اے کیڑا بوٹا اے، اج کل ون سونے بوٹے آ گئے نے”۔ وہ معصوم درخت کوئی اور نہیں ہمارا اپنا کیکر تھا۔

لیکن شائد میرے اس ہم سفر کی بات درست تھی،”اج کل ون سونے بوٹے آ گئے نے”۔ اور ان ون سونے بدیسی پودوں اور درختوں کے عشق میں ہم نےاپنے ہم وطن پودوں اور درختوں سے اعلان لاتعلقی کر دیا ہے۔ معیار یہ قرار پایا ہے کہ کوئی بھی پودا جو ہمارا نہیں ہے ، اچھا ہے۔ ہمارے موڈرن ہونے کی دلیل ہے۔ ہمارے اس رویے نے جہاں ہمارے ماحول کو بے انتہا نقصان پہنچایا ہے وہیں ہمیں اپنے نباتاتی ورثے سے بیگانہ کر دیا ہے۔ ہماری معلومات ان کے بارے میں بہت ہی محدود اور مختصر ہوتی جارہی ہیں۔ اب ہم سوائے چند کے اپنے دیسی پودوں کو پہچان بھی نہیں سکتے۔

اگر ہمیں یہ یاد ہے کہ کیکر میں بہت سے کانٹے ہوتے ہیں تو ہم اس کے پھولوں کو نہیں پہچانتے اور پھر ان کی مسحور کن خوشبو ، اس کا تو ہمیں اندازہ ہی نہیں، اور ہو بھی کیسے ہمارا ایسا کوئی تجربہ ہی نہیں، ہمارے اطراف تو صرف فائیکس بنجامانہ، السٹونیا اور کئی طرح کے بدیسی پام ہی ہوتے ہیں جن کی نہ تو کوئی خوشبو ہوتی ہے نہ کوئی پھول، نہ ان پر ہمارے پنچھی بسیرا کرتے ہیں نہ ان پر ان کے کھانے کو کچھ میسر ہوتا ہے۔

Toote un ripe fruit

۔ہمیں اگر اپنے شہروں کو تیزی سے سرسبز کرنا ہو تو بھی ہم بجائےاس کے کہ حیران کن حد تک تیزی سے بڑھنے والے اپنےلازوال درختوں اور پودوں سے امداد کے طلبگار ہوں، ہم تو دنیا بھر کے ایسے پودوں کی منت سماجت کرتے نظر آتے ہیں جو صرف اور صرف ہمارے ماحول کی موت ہوتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ غیر مقامی درختوں اور پودوں کی کاشت سے ہونے والاہولناک نقصان بڑھتا ہی جاتا ہے۔

اسلام آباد کو سرسبز کرنے کے لئے لگائے جانے والے بدیسی درخت "کاغذی توت” سے ہونے والے اور مسلسل بڑھتے ہی جانے والے نقصان سے واضح اور کیا مثال ہوسکتی ہے۔ اس کے باوجود ہم نے کراچی میں بغیر کسی تحقیق کے ایک اور اجنبی پوداجوہمارے ماحول سےنا صرف یہ کہ مطابقت نہیں رکھتا ہے بلکہ وہ تو پودوں کی درجہ بندی کے حوالے سے درخت ہی نہیں کہلاسکتا، پورے شہر میں لگانے کی خوفناک حماقت کی ہے ۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟
اس سوال کے جواب کی عرصہ دراز سے تلاش ہے۔ بہت سے جوابات ملتے بھی ہیں مگر ان کا اپنا سیاق وسباق ہوتا ہے کوئی ایک نظر سے دیکھتا ہے تو کوئی دوسری سے،کوئی ماحول کے حوالے سے دیکھتا ہے تو کوئی کاروبار کے، اور ہاں پودے لگانے کی اپنی بھی تو ایک معیشت ہوتی ہے اور وہ پودوں کے انتخاب پربری طرح اثر انداز بھی ہوتی ہے یا یوں کہا جائے کہ وہی حرف آخر ہوتی ہے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ آئیے ہم اس اہم سوال ، اسکے ممکنہ جوابات اور ان سے پیدا ہونے والے سوالات کا جائزہ لیں۔
اس بحث میں پڑے بغیر کہ مرغی پہلے تھی یاانڈا،ہم دیکھتے ہیں کہ کیوں ایک عام آدمی جو چاہے شہر کا ہو یا دیہات کا، معدودے چند اشجار کے، دیسی پودوں اور درختوں کی پہچان بھول چکا ہے؟
لینڈ سکیپ کے ماہر ہوں یا باغوں کی تعمیر کے یا پھر شاہرات کے اطراف شجرکاری کرنے والےسب ہی دیسی پودوں کو نظرانداز کر کے صرف ایسے بدیسی پودوں کا ہی انتخاب کیوں کرتے ہیں جو ہمارے ماحول سے کوئی مطابقت نہیں رکھتے؟
ان ہمہ جہت سوالات کے جواب میں ماحول کے لئے اجنبی اور بدیسی پودوں کی حمایت ان کی خوبصورتی اور کم از کم دیکھ بھال میں پنپنے کی خوبیوں کی بنا پر کرنا بتایا جاتا ہے جو حقیقت کے بالکل برعکس ہے اور ان "ماہرین” کی لاعلمی کے سوا کچھ نہیں۔ ایسے لوگ جو پودوں کے علم سے نابلد ہوتے ہیں عموما” اس کام پر معمور کئے جاتے ہیں۔

ہمارے سول سروس کے بابو چاہے فارسی، انگلش، کیمسٹری یا پھر میڈیسن اور انجیئرنگ پڑھ کر آئے ہوں کسی بھی ادارے میں کام کر سکتے ہیں بلکہ سربراہ بھی ہو سکتے ہیں جیسے وہ ہمارے سسٹم کے مولا مشکل کشا ہوں۔ یہی حال سیاسی رہنماوں کا بھی ہے، جوکام کیا جانا ہے اس میں مہارت ہونا کہیں بھی شرط نہیں ہے۔کوئی بھی غیر مقامی پودا لگانے سے پہلے اس کے متعلق کسی ماہر سے رجوع نہیں کیا جاتا اور نتائج سے بے پروا ہو کر نظر صرف اور صرف منافع پر رکھی جاتی ہے۔

پاکستان شاید خطے کا واحد ملک ہے جس کی کوئی "اربن فاریسٹ پالیسی” نہیں ہے۔ اور جب رہنما اصول ہی موجود نہ ہوں تو الزام کس کو دیا جائے اور کس قانون کے تحت احتساب کیا جائے۔
دوسری وجہ جس پر سول سروس اور سیاسی رہنمائی یک جان نظر آتی ہے وہ غیر مقامی پودوں کی شجرکاری سے حاصل ہونے والا غیر معمولی منافع ہے۔ آپ لاکھ کوشش کریں کیکر ، املتاس اور شیشم جیسے مقامی اشجار کے لئے ہزاروں تو کیا سیکڑوں روپے میں بھی قیمت وصول نہیں کی جاسکتی جبکہ مشکل ناموں والے امپورٹڈ پودوں کے لئے دسیوں ہزار کے بل پاس ہوجاتے ہیں۔
کوئی بھی سرکاری محکمہ اپنے مقامی اشجار کی بقا اور سلامتی کے لئے کام نہیں کررہا، اس میں محکمہ جنگلات اور شہروں کی ترقیاتی اتھارٹیز کے مجاز شعبے سب ہی شامل ہیں۔
پہلی جماعت سے لے کر فارغ اتحصیل ہونے تک کسی بھی سطح پر نجانے کیا کچھ پڑھایا جاتا ہے مگر اپنے مقامی پودوں اور درختوں سے متعلق کوئی معلومات نہیں دی جاتیں اور پھر خصوصا” شہروں میں بدیسی پودوں کے بڑھتے ہوئے رجحان نے ہمیں اپنے اس بے مثال ورثے سے یکسربے گانہ کر دیا ہے۔ایسے میں کسی کا کیکر کو نہ پہچان پانا اچنبہ کیوں ہو؟ یہ سوالات بار بار اٹھانے چاہیں تاوقت کہ ان کے تسلی بخش جوابات مل نہ جائیں۔
درختوں، ان کی کاشت اور ماحول سے متعلق اور بہت سے سوالات ہیں جو ان صفحات پر اٹھائے جائیں گے۔ جہاں ہم سوال اٹھائیں گے وہیں ہم ایک عام آدمی کی اپنے اشجار سے متعلق معلومات میں اضافے کی بھی کوشش کرئیں گے۔ اپنے پودوں اور درختوں کی تصاویر، طبی، عمومی اور نباتاتی تفصیلات کے بیان سے یہ سعی کی جائے گی کہ پڑھنے والا ان کو ظاہری طور پر پہچان پائے اور ان کے باطنی خواص کا معترف بھی ہوسکے۔
کو پڑھنا جاری رکھیں